ٓپ نے ”شارٹ کٹ
“(Shortcut)کا لفظ نہ صرف
سنا ہوگا بلکہ بارہا اس کا مشاہدہ بھی کیا ہوگا۔ شارٹ کٹ اگر علم وعقل اور دین کی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے
اپنایا جائے تو مفیدہے ورنہ اس کے نقصانات (Side Effects) بہت زیادہ ہیں ۔ جیسے پڑھائی چور ”شارٹ کٹ“ کے ذریعے جعلی
ڈگری لے کراپنے ساتھ ساتھ ملک وقوم کا بھی بیڑاغرق کرتا ہے اور یوٹرن کے بجائے” شارٹ کٹ“کے سہارے اپنی موٹر سائیکل فٹ پاتھ
کے اوپر سے پارکرنے والا اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگادیتا ہے ۔دورِ
حاضر میں ناعاقبت اندیش مسلمان دین میں بھی” شارٹ کٹ “ڈھونڈتے رہتے ہیں اور بہت سے”وقت
طلب“ دینی معاملات کو مختصر وقت میں انجام دینا چاہتے ہیں جیسے تین بار
سورۂ اخلاص پڑھی اور مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لئے’’ایک قرآن پاک ‘‘لکھوادیااور
لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ موصوف نے اول تا آخر مکمل قرآن پاک پڑھاہے حالانکہ حدیث
شریف تو یہ اہمیت بتانے کے لئے تھی کہ جب تین بار سورۂ اخلاص کی تلاوت پر اتنا
ثواب ہے تو غورکروپورا قرآن کریم پڑھنے
پر کتنا ثواب ہوگا۔یونہی ماہِ رمضان شریف میں عبادت سے جی چرانے والے ”مرد“وہ مسجد
تلاش کرتے نظر آئیں گے جہاں”20منٹ والی“ تراویح ہوتی ہے (ایک جگہ تو16 منٹ کا بھی
ریکارڈ ہے ،لاحول ولاقوۃ الاباللہ تعالی)اوراگرتھوڑی ہمت کربھی لیں تو ایسے حافظ صاحب کا انتخاب
کرتے ہیں جو جلد ’’فارغ‘‘کردے ۔یہی حال قضائے عمری کا بھی ہے کہ بعض نادان ماہِ
رمضان کے آخری جمعے (جمعۃ الوداع)کو مخصوص طریقے پرنمازپڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم سے قضائے
عمری کا بوجھ اتر گیا ۔یہ ایک خود ساختہ”دینی شارٹ کٹ“ ہے مگر یہ سمجھنا کہ اس کے بعد قضائے عمری پڑھنے کی کوئی حاجت
نہیں سراسر جہالت اور احکام شریعت سے روگردانی ہے ۔علم وآگہی کے باوجود ہمارے ہاں
بعض علاقوں میں باجماعت یہ نماز پڑھائی جاتی ہے۔ بقول شخصے ایک جگہ توکوئی”اہم
شخصیت ‘‘بھی یہ فریضہ انجام دیتی ہے۔والی اللہ المشتکی۔ جبکہ علماء کرام اور محدثین عظام نے اس عمل کو جہالت قبیحہ،واضح
گمراہی ،سخت ممنوع، بدترین بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہا ہے ۔چنانچہ،
امام اہلسنت امام
احمد رضا خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ ،جلد۸،صفحہ ۱۵۵پر اس طرح
نماز پڑھنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’فوت شدہ
نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو( قضائے عمری کا)طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس
بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع (من گھڑت) ہے یہ عمل سخت
ممنوع ہے ، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور
واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، حضور پر نور سید المرسلین صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:” من
نسی صلوٰۃ فلیصلہا اذا ذکرھا لا کفارۃ لھا الا ذلک
ترجمہ:
جو شخص نماز بھول گیا تو جب اسے یاد آئے ادا کرلے، اس کا کفارہ سوائے اس کی
ادائیگی کے کچھ نہیں ۔“(صحیح مسلم ،ص۳۴۶،الحدیث:۶۸۴)یہ حدیث شریف اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قضانمازیں
کسی شارٹ کٹ سے ادا نہیں ہوں بلکہ انہیں پڑھنا ہی ہوگا۔
اورحضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ
علیہ”موضوعات
کبیر“ میں فرماتے ہیں:یہ حدیث کہ ” من قضی
صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی
سبعین سنۃترجمہ: جس نے
رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ
نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے ۔“ یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ یہ اس اجماع کے
مخالف ہے کہ ”عبادات میں سے کوئی شے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام
نہیں ہوسکتی۔“(
الاسرار الموضوعۃ ،ص۲۴۲،الحدیث:۹۵۳)اور
امام ابن حجر اور علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں :اقبح من ذلک مااعتید
فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ
العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفیترجمہ :اس سے
بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن
نمازِ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کی جائیں کہ اس سے ایک سال یا گذشتہ
تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت
ہی واضح ہیں۔(
شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ ،ج۹،ص۴۶۴)
یوں ہی مجدد اعظم امام اہلسنت نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہُ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :نماز قضائے عمری کہ آخرجمعہ ماہِ مبارک رمضان میں اس
کاپڑھنا اختراع کیا(گھڑا)گیا اور اس میں یہ سمجھاجاتاہے کہ اس نماز سے عمربھر کی اپنی اور ماں باپ
کی بھی قضائیں اُترجاتی ہیں محض باطل و بدعت سیئہ شنیعہ(انتہائی بُری بدعت) ہے کسی کتاب معتبر
میں اصلاً اس کانشان نہیں۔(فتاوی رضویہ،ج۷،ص۴۱۷)
البتہ بعض علمائے متاخرین نے جمعۃ الوداع میں نوافل کا ایک
طریقہ لکھا ہے مگر وہ بھی یہی فرماتے ہیں
کہ ان نوافل کی برکت سےصرف’’ قضاکا گناہ‘‘ معاف ہونے کی امید ہے اور ایسا
ہرگز نہیں ہے کہ اس سے قضا نمازیں معاف ہوجائیں گی کیونکہ قضا نمازیں صرف اور صرف
پڑھنے ہی سے ادا ہوتی ہیں ۔جیسا کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی قُدِّسَ
سِرُّہُ فرماتے ہیں :” جمعۃ الواداع میں نماز قضا عمری پڑھے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جمعۃ الوداع
کے دن ظہر وعصر کے درمیان بار ہ رکعت نفل دو دو رکعت کی نیت سے پڑھے اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدا یک بار آیت الکرسی اور
تین بار”قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ “اور ایک ایک بار فلق اور ناس پڑھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جس قد ر نمازیں
اس نے قضا کر کے پڑھی ہوں گی ۔ ان کے قضا کرنے کا گناہ اِنْ شَآءَاللہ
عَزَّوَجَلَّ! معاف ہوجائے گا۔یہ نہیں کہ قضا نمازیں اس سے معاف ہوجائیں
گی وہ تو پڑھنے سے ہی ادا ہوں گی ۔(اسلامی زندگی ،ص۱۰۵)
بارگاہِ
الہٰی میں دعا ہے کہ وہ ہمیں حق وسچ کو سمجھنےاوراسے قبول کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور دین میں ایسے ’’شارٹ کٹس‘‘سے
ہماری حفاظت فرمائے جوہمیں جنت ورحمت کے بجائے جہنم ولعنت کا راستہ دکھائیں۔امین
محمد
آصف اقبال (ایم ۔اے)
کراچی،پاکستان